هفته 15 مارچ 2025
اشتہارات کے لیے ایڈمن سے رابطہ کریں
مانگٹ آنلائن

تے فیدہ کی ؟

ایسے نہیں ہوتا کہ کسی لکھاری کو کسی بھی دن کوئی نامعلوم اچانک پھینٹ دے یا غائب کر دے۔ ایسے گھٹیا کام صرف نان سٹیٹ ایکٹرز کرتے ہیں۔ سٹیٹ ایکٹرز کا یہ وطیرہ ہرگز نہیں۔ ان کا اپنا معیار، انداز اور مقام ہے۔

سٹیٹ ایکٹرز آپ کو بذریعہ کال یا ایس ایم ایس مطلع کرتے ہیں کہ “سر جی فی زمانہ جس جرات مندی سے آپ لکھتے اور بولتے ہیں کبھی کبھی تو ڈر سالگتا ہے کہ آپ کو کیوں ڈر نہیں لگتا۔ آپ اس ملک کا سرمایہ ہیں سر۔ بس لکھتے وقت آج کل ذرا احتیاط کرلیا کریں۔ اس ملک میں بڑے بڑے جنگلی گھوم رہے ہیں۔ کچھ پتہ نہیں کون کیا سمجھ کے کیا کر ڈالے۔ بہرحال اللہ تعالی آپ کو حفظ وامان میں رکھے۔”

جب آپ ہمت کر کے پوچھتے ہیں کہ آپ کی تعریف؟ بس جی میرا نام اے زیڈ سلیم ہے، ایک سرکاری محکمے میں ملازم ہوں۔ اب اجازت۔ اللہ حافظ۔۔

اگر آپ نے اس گفتگو کو محض ایک عام سے فین کے جذبات سمجھ لیا تو آپ کی قسمت۔ کچھ عرصے بعد آپ کے کسی افسانے، سفر نامے، کالم یا بلاگ کو پکڑ کے سوشل میڈیا پر اچانک ایک دھڑم دھکیل مہم نمودار ہوگی۔ ضمیر فروش، ملک دشمن، بیرونی ایجنٹ، صیہون لابی کا کتا، لبرل فاشسٹ، کرائے کا لکھاری، یہ دیکھیے لال دائرے میں افغان ایجنٹ سے خفیہ طور پرملتے ہوئے۔ یہ دیکھیے ایک مغربی سفارتخانے کی شراب و شباب کی محفل میں بے غیرتی سے ہنستے ہوئے (لال دائرے میں)۔

مطلب یہ کہ اب بھی وقت ہے نادان سنبھل جا اور اپنے قلم کو لگام دے لے۔ پھر بھی اگر آپ بے وقوفی کی حد تک دلیر ہیں تو غضب ناک گھوڑے کے سموں سے نکلنے والی چنگاریوں کے لیے تیار رہیں۔ نامعلوم یا اجنبی نمبروں سے کالز کا سلسلہ ۔ آپ ہیلو ہیلو کرتے رہیں اورآگے سے کوئی نہ بولے، تھوڑی دیر بعد کال کٹ جائے اور پھر گھنٹی بجے اور پھر خاموشی کا ٹارچر شروع ہوجائے۔

یا پھر کوئی ایسی کال آئے “آپ کل دوپہر ڈیفنس فیز ایٹ کی سٹریٹ 48 میں دو بجکر 35 منٹ پر مکان نمبر اے 35 سے نکلتے دیکھے گئے۔ ایسے نہ گھوما کریں۔ آپ آج بچے کو سکول لینے 10 منٹ لیٹ کیوں ہوگئے تھے خیریت؟”

اگر آپ اب بھی سدھرنے پر آمادہ نہیں تو یا تو پاگل ہیں یا پھر منیر نیازی کے عاشق “کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی”۔

اس ڈھٹائی پر کہ جسے آپ حق و باطل کے اصولوں اورآزادیِ اظہار کی جنگ سمجھ رہے ہیں۔ اگلے مرحلے میں آپ کو “اس کی سجا جرور ملے گی بروبر ملے گی”۔

ہو سکتا ہے آپ کا کوئی ایک تحریری یا زبانی فقرہ سیاق و سباق سے الگ کر کے توہینِ مذہب کے دائرے میں داخل کر دیاجائے تاکہ آپ روپوشی یا بیرونِ ملک ہجرت میں انتخاب کرسکیں۔ ہو سکتا ہے آپ کو کوئی موٹر سائیکل سوار یا پیدلیا یا کوئی بھوت ناقابلِ برداشت جسمانی نقصان پہنچا دے۔ ہو سکتا ہے آپ ہوا میں غائب ہو جائیں اور چند دن بعد اچھے بچے بن کر لوٹ آئیں یا پھر ہو سکتا ہے آپ کو۔۔۔۔۔
یعنی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

اس لیے خیریت چاہتے ہیں تو پہلی اتفاقی، مہذب، تعریفی، دوستانہ وارننگ کو غنیمت جانیں اور کسی بھی ایسی منڈلی کا حصہ بن جائیں جو “دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا” گاتے بجاتے گزر رہی ہو۔

پھر بھی اگر حق سچ کا کیڑا کلبلانے پر بضد ہو تو اس کا رخ کسی یتیم تھانیدار، لینڈ مافیا، بدعنوان ٹھیکیدار، جمہوریت وغیرہ کی طرف موڑ دیں، کسی سیاستداں کے پیچھے لگا دیں، شہر میں گندگی کے ڈھیروں پر نظم یا نثر لکھنے پر مامور کر دیں وغیرہ وغیرہ

کیا فائدہ ایسے حساس موضوعات پر قلمی تلوار بازی کا کہ جو سادے یا مد والے الف یا ف وغیرہ سے شروع ہوتے ہوں۔ بقول بابا عبیر ابوذری

جھاڑُو نال بناون مور تے فیدہ کی
بُوتھی ہو جائے ہور دی ہور تے فیدہ کی
پَھڑ کے اندر دَین دھسوڑ تے فیدہ کی
پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: سید مہدی بخاری

واپس ہوم پیج پہ جائیں
اشتہارات کے لیے ایڈمن سے رابطہ کریں