شادی کے بعد دو تین سال تک اولاد نہ ہو تو تقریباً اکثریت جوڑوں اور انکے گھروں میں یہ نارمل ہی ہے۔ اس کے بعد فکر شروع ہوتی ہے۔ حالیہ دس سالوں میں مرد و خواتین میں Infertility کے کیسز بہت زیادہ بڑھے ہیں۔ تقریباً ہر دسواں جوڑا قدرتی طور پر یا دواؤں کی مدد کے بغیر والدین نہیں بن پا رہا۔ جسکی کئئ وجوہات ہیں وہ پھر کسی دن لکھوں گا۔ اور ہمارے دیہاتی کلچر میں سمجھا یہ جاتا ہے کہ مسئلہ لڑکی میں ہوگا تو اسکے الٹرا ساؤنڈ وغیرہ شروع ہوتے ہیں۔ ساتھ گائنی ڈاکٹر کوئی دوا لکھ دیتی ہے جو حمل ٹھہرنے میں ممد ہو۔ چھ ماہ سال مزید گزرنے پر بھی کوئی خوش خبری نہ ملے تو ڈاکٹر صاحبہ خاوند کا ٹیسٹ بھی کرانے کا کہتی ہیں۔ عموماً وہ شروع بھی کہہ دیتی ہیں کہ خاوند کا بھی Semen Analysis کرا کے رپورٹ ساتھ لائیں۔ خاوند کی اگر رپورٹ ٹھیک ہو یعنی سپرم کاؤنٹ حمل ٹھہرنے کے لیے مناسب ہو تو خاتون کو ٹیوبز کا ٹیسٹ ریکمنڈ کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر اس سے بھی کوئی بات سمجھ نہ آئے تو ڈاکٹر ڈائگناسٹک لیپرو سکوپی کا مشورہ دیتی ہیں۔ لیپرو سکوپ آپ نے سنا ہی ہوگا ایک کیمرہ ہوتا ہے جو اندرونی نظام کی ویڈیو یا تصویر بنانے کے لیے آپریشن تھیٹر میں استعمال ہوتا ہے۔ جس جگہ کوئی مسئلہ ہو وہاں ایک سینٹی میٹر کا کٹ لگا کر اسے اندر بھیجا جاتا ہے اور اسکا کیمرہ و لائٹ اندرونی نظام کو نہ صرف دکھاتا ہے بلکہ جتنا مرضی زوم بھی کر کے مسئلے کی نشاندھی کر سکتے ہیں۔ اگر تو دوران تشخیص کوئی ایسا مسئلہ نظر آئے جیسے ٹیوبز میں بلاکیج ہے تو وہی ڈائگناسٹک لیپرو سکوپی سرجیکل لیپرو سکوپی میں بدل کر ٹیوبز کو کھولنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بچہ دانی میں کوئی اور چیز ہو تو اسے بھی اسی سرجری سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ پیٹ پر ایک سینٹی میٹر کا کٹ ہی رہے گا۔ ماضی میں بڑا آپریشن کرکے یہ عمل کیا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے جوڑے جو دوا کھانے سے بھی والدین نہیں بن پا رہے۔ وہ اپنا سیمن انیلسز اور لیپرو سکوپی کرا سکتے ہیں۔ مرد کا ٹیسٹ کو کم خرچ ہے۔ اور خواتین کا یہ لیپرو سکوپی ہسپتال اور ڈاکٹر کی قابلیت کے اعتبار سے 50 ہزار سے 1 لاکھ روپے تک ہوتا ہے۔ اس میں مریضہ کو انستھیزیا کا ڈاکٹر مکمل بے ہوش کرتا ہے۔ اور بے ہوشی میں ہی یہ عمل آپریشن تھیٹر میں کیا جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دل کی نالیوں کا ٹیسٹ اینجیو گرافی ہے اور جس نالی میں بلاکیج وغیرہ ہو تو اسی وقت وہ انجیو پلاسٹی بن جاتی ہے اور سٹنٹ ڈال دیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان کے دور میں یہ دونوں ٹیسٹ ہیلتھ کارڈ پر بلکل فری کر دیے گئے تھے۔ اب آپ اینجیو گرافی کرائیں یا لیپرو سکوپی آپ کو اس کا 30 فیصد خود دینا ہوگا۔ باقی حکومت ادا کرے گی۔ ایک ایورج ہسپتال میں یہ لیپرو سکوپی ٹیسٹ 50 ہزار کا ہے اور تقریباً 15 ہزار مریض ادا کرتا ہے۔ اکثریت کو تو اس ٹیسٹ کا علم ہی نہیں ہوتا نہ چھوٹے شہروں میں بیٹھی ہیلتھ ورکرز اور گائنی ڈاکٹر یہ بتاتی ہیں۔ سوچا آپ کے علم میں اضافہ کر دوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے جوڑے جو والدین بننے کی کوشش میں ایک لمبے عرصے سے ہیں۔ وہ اپنے شہر میں کسی بھی اچھے ہسپتال سے یہ ٹیسٹ کرا سکتے ہیں۔ اس سے کافی حد تک علم ہوجاتا ہے کہ مسئلہ اگر لڑکی میں ہے تو وہ قابل علاج ہے یا نہیں۔ اور علاج کی درست سمت کا تعین بھی ہوجاتا ہے۔ ورنہ لوگوں کو دس بیس سال تک دوائیاں کھاتے، دم درود کراتے، منتیں مانگتے اور حکیموں کے پاس جاتے دیکھتا ہوں۔ پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بس الٹرا ساؤنڈ ہی کرائے ہیں اور ڈاکٹر کہتی ہے دونوں میاں بیوی ٹھیک ہیں اللہ کی طرف سے ہی دیر ہے۔ حالانکہ ایک الٹرا ساؤنڈ میں یہ بات ہر گز نہیں بتائی جا سکتی کہ اندر سب کچھ بلکل ٹھیک ہے۔ اور نہ ہی سیمن انیلسز کرائے بغیر خاوند یہ کلیم کر سکتا ہے میں بلکل ٹھیک ہوں۔
تحریر:خطیب احمد
هفته
15
مارچ
2025
اشتہارات کے لیے ایڈمن سے رابطہ کریں
مانگٹ آنلائن
واپس ہوم پیج پہ جائیں
اشتہارات کے لیے ایڈمن سے رابطہ کریں