مانگٹ کے گردوارہ بھائی بنوں پہ ایک اور دلچسپ تحریر

یہ تصویر کئی حوالوں سے معتبر ہے اسے فقط ایک عمارت کہنا زیادتی ھو گی اس کا ایک معتبر حوالہ تو سکھ تاریخ ھے اور دوسرا مانگٹ کی ایک اکثریت کا جذباتی تعلق ۔ آج ہم زندگی کی آخری کلاس میں داخل ھوا چاہتے ہیں لیکن ہمارا پہلی کلاس میں داخلہ اسی عمارت میں ھوا تھا ۔پروگرام ھوا کہ کیوں نہ اس کی کھوج میں کھوجی کی ذمہ داری نبھائی جائے اور ایک لمبی چھڑی لے کر اسے جگہ جگہ ڈھونڈا جائے۔مانگٹ کسی شخصیت کا نام رھا ھو یا کسی گوتھ کا نام یا کوئی ثانوی گوتھ دلچسپ ضرور ہے۔ تاریخ اس گاوں کو کھارا مانگٹ اور اس گوردوارہ کو گردوارہ بھائی بنوں کے حوالے سے پہچانتی ھے ۔یہاں کے باسی اسے چنڈورہ کہتے ہیں۔ چنڈورہ لفظ بھی غور طلب ھے ۔ ہماری ایک اکثریت نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز یہیں سے ہی کیا اسی لئے اسے پرائمری سکول کا درجہ بھی حاصل رھا ھے ۔زلزلے کے بعد پرائمری سکول یہاں سے شفٹ ھو گیا اور اس طرح یہ زلزلوں کا شکار ھو گیا ۔اور آج تاریخ کی یہ قبر اپنے آخری نظارے دکھا رہی ھے
مانگٹ کے حوالے سے جاننے کا اشتیاق قبل ازیں زمیندار کالج گجرات میں طالب علمی کے زمانے میں ھوا ان دنوں ہی ہماری ملاقاتیں مفتی ریاض احمد ایڈووکیٹ اور استاد مکرم جناب احمد حسین قلعداری سے رہتی تھیں ۔مفتی ریاض نے ان دنوں ایک مضمون " آئینے کو آئینہ " تحریر کیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ گردوارہ بھائی بنوں میں سکھوں کی کتاب ادی گرنتھ موجود تھی ۔سکھ اس کی زیارت کی خاطر گجرات جوتیاں اتار کر آتے تھے اور واپسی پر عام طور پر جوتے غائب پاتے تھے تو ایسے ہی کسی موقع پر انہوں نے گجراتیوں کو جوتی چور کا تاریخی لقب دیا ۔جوتی چور کا لقب دینے کی صحت پہ تو یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ مانگٹ کے تاریخی حوالے سے دلچسپی پیدا ہوئی اور کسی نہ کسی طور قائم بھی رہی
پھر یوں ھوا کہ آوارہ گردی نے آ لیا قریہ قریہ۔بستی بستی ۔شہر شہر یوں گم ھوئے کہ خبر ہی نہ ھوئی کہ عمر نے آ لیا ۔خیر گزراں گزر گئی پچھلے دنوں ایک کالج دور کا دوست جو شاعر اور تاریخ دان بھی ھے ادھر کو آ نکلا اور گردوارہ بھائی بنوں کے گرد منڈلاتا میرے رابطے میں آ گیا اور یوں اس نے ایک بار پھر مجھے دعوت دی کہ اس پہ مل کے کام کرتے ہیں اس طرح میں دوبارہ اس پرائمری سکول میں داخل ھوا۔ ہمارا یہ دوست پہلے ہی اس پہ کافی کام کر چکا ھے گردوارہ میں رکھی ادی گرنتھ کے بارے اس کی تحقیق کمال کی ھے گرنتھ جو گردوارہ میں تھی اس کی اشاعت کے حوالے سے تحقیق پڑھنے سے تعلق رکھتی ھے
اس سلسلے میں گاوں کے پڑھے لکھے دوستوں سے رابطہ کیا تو اکثریت نے دلچسپی کا اظہار کیا اور اس حوالے سے اپنی خدمات پیش کیں۔بہت سے مہربان ایسے تھے جن سے مواد مل سکتا تھا لیکن افسوس کہ اب وہ ہمارے درمیان نہیں رھے لیکن ایک اکثریت آج بھی موجود ہے جن کا پچپن اور ابتدائی تعلیمی دور اس عمارت سے متعلق ھے ۔ذاتی طور پر مجھے یاد ہے کہ ہم چنڈورے کے اوپر گبند پر جاتے تھے تو پورے گاوں کا منظر ہمارے سامنے ھوتا یہ گنبد گاوں کی اونچی جگہ تھی ۔ گردوارہ کے اندر اس کی دیواروں اور باہر کی دیواروں پر بہت سی تصاویر کندہ تھیں جو ہمارے اس دور کے احباب کے ذہنوں میں نقش ھوں گی ان تصاویر سے سکھ کلچر کا پتا چلتا ھے ۔ ھم ایسے دوستوں کو دعوت دیں گے جن کی یادداشتوں میں سب کچھ موجود ہے ہماری راہنمائی فرمائیں تاکہ ہم اپنے گاوں کا تاریخی سرمایہ اپنی آنے والی نسل کے حوالے کر جائیں۔ہمارے بعد جو مانگٹ ھو گا وہ خود اسے محفوظ کر لیں گے میں اپنی آ نے والی نسل پہ دوسرے لوگوں کی طرح شاکی نہیں ھوں میڈیا کا دور ھے اظہار کی آزادی ھے ان میں کہنے اور سننے کا اشتیاق یقینا ھو گا اور وہ اس تاریخی ورثے کی حفاظت ضرور کریں گے
مانگٹ سے وابستہ بہت سا مواد ھے پوری دنیا میں اس کی تاریخ بکھری پڑی ہے وہ گوتھ کے حوالے سے ھوں یا مختلف گاوں کے ناموں کی صورت ۔انڈیا میں شوبز کی دنیا ھو یا امرتسر کے قریب بسے مانگٹ ھوں یہ سب مانگٹ کی تاریخ سے ہی متعلق ہیں
ایک تحقیق کے مطابق پہلے پہل مانگٹ وادی سندھ میں منکیرہ کے مقام پہ آئے تھے اور پھر وہاں سے یہ پورے خطے میں پھیل گئے ۔ایک زمانہ رھا کہ سندھو ندی منکیرہ کے ساتھ بہتی تھی اور اسی مناسبت سے اس آبادی کو منکیرہ کہا جا نے لگا اور پھر دریا ہٹ کے موجودہ مقام تک ا گیا منکیرہ بھکر کی تحصیل ھے اور اس علاقہ کو تھل کہتے ہیں
انسان ہمیشہ سے ہی اپنے وجود کا متلاشی رھا ھے ۔وہ اپنی تکمیل کی خاطر سر گرداں رہتا ھے اس کا یہ سفر اپنی کھوج ہی ھے ۔۔ اہل ذوق اس سفر میں ہمارے ساتھ چلیں
صلائے عام ھے یاران نقطہ داں کے لئے

اشرف طاہر اسلام آباد اگست 2022

16:51:51 29-08-2022
Share Post
مانگٹ پاکستان
0
2180
اسی سیکشن سے مزید
اشتہارات کے لیے ایڈمن سے رابطہ کریں
زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹیں
ہمارے سوشل میڈیا پیجز