مانگٹ کی ایک عظیم شخصیت کا انتقال ہو گیا مانگٹ کے گردوارہ بھائی بنوں پہ ایک اور دلچسپ تحریر حکومت پاکستان کی غفلت، چلغوزے کے جنگل میں گیارہ دن سے آگ تحصیل ملکوال کے نواحی گاؤں بادشاہ پور میں قتل منڈی بہاوالدین میں ڈاکٹرسمیت دس افراد کا صحافیوں پہ تشدد منڈی بہاوالدین ، چیمہ چوک کے پاس مسافروں سے بھری بس اُلٹ گئی ڈبل ڈور گاڑی نیلم ویلی کو کراس کرتے ہوئے پانی میں بہہ گئی مجھے آپ والی جنت نہیں چاہیے ،کہنےوالی عظیم ہستی بلقیس ایدھی انتقال کر گئیں مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف پاکستان کے تیئسویں وزیر اعظم منتخب وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی گئی
مانگٹ کی تاریخ دو مذاہب مسلمانوں اور سکھوں کے مقدس مقامات کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ پاکستان سے پہلے اس علاقے میں بہت سے سکھ خاندان آباد تھے۔ اس لیے اس گاؤں میں اب بھی بہت سی پرانی عمارتیں موجود ہیں جو سکھوں نے بنائی تھیں۔ اگرچہ بہت سی تاریخی عمارتیں مندھم ہو چُکی ہیں یا مکمل ظور پر ختم ہو چُکی ہیں لیکن پھر بھی کچھ عمارتیں ابھی تک اپنی اصل شکل میں موجود ہیں جن میں گُردوارہ بھائی بنوں بہت ہی تاریخی اہمیت کا حامل ہے جو سکھوں کے انٹرنیشل گُردواروں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ گردوارہ بھائی بنوں ایک بہت بڑا اور بہت ہی خوبصورت گُردوارہ ہے جس کی دیواروں اور فرش میں سنگ مر مر کا بہت ہی نفاست سے استعمال کیا گیا ہے اور دیواروں کو قیام پاکستان سےقبل مانگٹ و اس علاقے کی ثقافت کے نقش و نگار سے بہت ہی خوبصورتی سے سجایا گیا ہے ۔
گردوارہ کے مرکزی دروازے کے بالکل سامنے صاف پانی کا ایک تالاب یعنی سکھوں کااشنان گھاٹ تھا جو تقریبا سن دو ہزار کے بعد مندھم ہوتا ہوتا اب مکمل طور پر غائب ہو چُکا ہے۔ وہیں اشنان گھاٹ کے ساتھ بوہڑ کا ایک بہت پرانا اور بہت بڑا درخت تھا جو پکی اینٹوں کے ایک بہت چوڑے چبوترے کے عین درمیان میں تھا . چبوترے کی اُونچائی تقریبا دو سے تین فُٹ تھی۔ اس چبوترے پہ روزانہ صبح کے وقت سبزی منڈی لگا کرتی تھی جس میں مانگٹ اور گردونواح کے گائوں سے سبزی اور پھل وغیرہ اگانے والے لوگ اپنی سبزیاںاورپھل بیچنے کے لیے یہاں آتے تھے اور دکاندار حضرات ان سے سبزیاں اور پھل خرید کر دن بھر اپنی دکانوں پہ بیچتے تھے یوں یہ جگہ کاروباری لحاظ سے بھی تاریخ میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے
گردوارہ بھائی بنوں کو قیام پاکستان سے قبل سکھ اپنی مذہبی عبادات کے لیے استعمال کرتے تھے اور قیام پاکستان کے بعد کئی دہائیوں تک اسے لڑکوں کے پرائمری سکول کے طور پہ استعمال کیا جاتا رہا لیکن سن دو ہزار کے آس پاس عمارت کی خستہ حالی کے باعث سکول کو یہاں سے ختم کر دیا گیا۔