تو گیا ہے تو آ گیا ہم پر ، اس سے پہلے زوال تھا ہی نہیں

تو گیا ہے تو آ گیا ہم پر
اس سے پہلے زوال تھا ہی نہیں
درد آتا زباں پہ پھر کیسے
دل میں کوٸی ملال تھا ہی نہیں
تیرے بارے میں اب خیال ہے جو
کوٸی ایسا خیال تھا ہی نہیں
اُس نے جو بھی کیا کمال کیا
ہم میں کوٸی کمال تھا ہی نہیں
اس کی جانب سے کیا جواب آتا
اپنے لب پر سوال تھا ہی نہیں
اسکی نیت پہ شک سبھی نے کیا
جسکی نیت میں بال تھا ہی نہیں
بس اُسی سال میں گزاری ہے
زندگی میں جو سال تھا ہی نہیں
اس کی مُٹھّی آگیا تھا وہ
جسکی مُٹھّی میں مال تھاہی نہیں
دشمنوں سے ملا ہوا ہوگا
دوستوں کو خیال تھا ہی نہیں
درد بانٹا گیا اسی کا یہاں
درد سے جو نڈھال تھا ہی نہیں
وحشتیں آشکار کیا ہوتیں
شہر بھر میں غزال تھا ہی نہیں
کٹ رہی تھی بڑی سہولت سے
عشق جیسا وبال تھا ہی نہیں
اب سمجھ لےیہ بات سادہ سی
دیکھ لالے! وہ لال تھا ہی نہیں
یہ پرندوں کی خوش نصیبی تھی
بس شکاری تھا جال تھا ہی نہیں
اب کہ ہولی پہ رنگ نہیں آیا
گال تھا گر، گُلال تھا ہی نہیں
بیتے وقتوں میں ہم شمار ہوٸے
اپنا ماضی تھا حال تھا ہی نہیں
مظہراقبال

23:32:38 02-09-2022
Share Post
غزل
0
1012
اسی سیکشن سے مزید
اشتہارات کے لیے ایڈمن سے رابطہ کریں
زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹیں
ہمارے سوشل میڈیا پیجز