چاہت کے آزار بہت ہیں

چاہت کے آزار بہت ہیں
یہ رستے دشوار بہت ہیں

تم کلیوں کے سپنے دیکھو
ان راہوں میں خار بہت ہیں

سچ ہے دنیا کا افسانہ
پر جھوٹے کردار بہت ہیں

بِکتا ہے انسان جہاں پر
شہر میں وہ بازار بہت ہیں

ہجرت پر مجبور ہیں پنچھی
کٹنے کو اشجار بہت ہیں

کل جھوٹی تھی سنی سناٸی
اب جھوٹے اخبار بہت ہیں

خوشبو ، تتلی ، چاند ، ستارے
اُن کے دعویدار بہت ہیں

دیکھ مسیحا بھیج فلک سے
دھرتی پر بیمار بہت ہیں

مرنے کی تدبیر نہ جانیں
جینے سے بیزار بہت ہیں

ان کا گھر میں دل نہیں لگتا
وہ جن کے گھر بار بہت ہیں

عظمت کا معیار گرا ہے
اور اونچے مینار بہت ہیں

کیا بدلے تقدیر ہماری
گردش کے آثار بہت ہیں

ہر فاقے نے سمجھایا ہے
جنت میں اَثمار بہت ہیں

یہ دعویٰ بھی باطل نکلا
مظہر تیر ے یار بہت ہیں

مان لیا چالاک ہو تم بھی
ہم بھی تو فنکار بہت ہیں
..........................................
ڈاکٹر مظہر اقبال (مانگٹ)

06:10:47 01-04-2023
Share Post
غزل
0
1054
اسی سیکشن سے مزید
اشتہارات کے لیے ایڈمن سے رابطہ کریں
زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹیں
ہمارے سوشل میڈیا پیجز