دلاسہ دے کے چراغوں کو ٹال آئے ہیں

دلاسہ دے کے چراغوں کو ٹال آئے ہیں
وہ ساری بات ہواؤں پہ ڈال آئے ہیں

یقین مانو محبت کے سال آئے ہیں
کمر تلک جو تمہارے یہ بال آئے ہیں

عجیب دوڑتی پھرتی ہیں سرخیاں ان میں
کسی کے بوسوں کی ذَد میں یہ گال آئے ہیں

تمھاری آنکھ بھی مستی میں ڈبڈبائی ہے
ہمارے پاؤں بھی جانب دھمال آئے ہیں

کیا ہے دونوں سے ہم نے کشید تیرا سرور
فراق آئے ہیں ہم پر وصال آئے ہیں

ہمارے کام نہ آئی ہماری تیار ی
سبھی نصاب سے ہٹ کر سوال آئے ہیں

کوئی کھڑا ہے کہیں پر سمیٹے بے رنگی
کسی کے ہاتھ میں کتنے گُلال آئے ہیں

تمہھیں بھی ہم پہ بھروسہ نہیں ہے پہلے سا
ہمارے دل میں بھی کتنے ہی بال آئے ہیں

یقیں نہیں ہے کہ آٰئے گا چاند حصّے میں
تو کس گمان پہ سکّہ اُچھال آئے ہیں

جھڑک دیا ہے برابر میں بیٹھے لوگوں کو
کہیں کا غصہ کہیں پر نکال آئے ہیں

ڈاکٹر مظہراقبال

14:11:03 23-10-2021
Share Post
غزل
0
0
اسی سیکشن سے مزید
اشتہارات کے لیے ایڈمن سے رابطہ کریں
زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹیں
ہمارے سوشل میڈیا پیجز